Friday, May 28, 2010

نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشن گوئیاں

نعمت اللہ شاہ ولی رحمہ اللہ تعالی ایک بہت بڑے ولی اللہ تھے۔
انہوں نے کئی صدیاں پہلے کچھ پیشن گوئیاں کیں تھیں جن میں سے بہت ساری پوری ہوچکی ہیں اور کچھ باقی ہیں ۔
مثلا سرحد کے لوگ ہندوستان کو فتح کریں گے۔ وغیرہ وغیرہ

Wednesday, May 19, 2010

لاہور ہائی کورٹ کا فیس بک ویب سائٹ بندکرنے کا حکم

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ،لاہور ہائی کورٹ کا فیس بک(Facebook)ویب سائٹ بندکرنے کا حکم:
لاہور ہائی کورٹ نے عارضی طور پرفیس بک ویب سائٹ بند کرنے کا حکم دے دیا ۔فیس بک پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خاکوں کے مقابلے کے خلاف درخواست پرسماعت کے دوران عدالت نے پاکستان میں فیس بک اکتیس مئی تک بند رکھنے کے احکامات جاری کئے گئے۔لاہور ہائی کورٹ میں اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے فیس بک کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ فیس بک پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منعقد کیا جا رہا ہے جس سے عالم اسلام میں تشویش پائی جاتی ہے لہذا اسے فوری طور پر بند کیا جائے ۔اس حوالے سے آج لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اور وکلاءکو مشاورت کے لئے ایک گھنٹے کا وقت دیا جس کے بعد مشترکہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ ملک میں فیس بک ویب سائٹ کو بند کر دیا جائے ۔سماعت کے آغاز میں سیکریٹری مواصلات نے اپنے تحریری جواب میں کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خاکوں والا حصہ فیس پر بلاک کردیا گیا ہے۔ تاہم تکنیکی طور پرپورے فیس بک کوبلاک نہیں کیاجا سکتا۔ عدالت نے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اکتیس مئی کو گستاخانہ خاکوں سے متعلق اٹھائے گئے حکومتی اقدامات سے عدالت کو آگاہ کیا جائے

لیز چپس


Friday, May 14, 2010

اپنی نفسانی خواہشات کا جائزہ لیں


معیاری وقت


دجال کی عالمی ریاست


عسکریت پسندی ۔ اعتراف حقیقت کی ضرورت

سلیم صافی
کسی نے کہا تھا کہ” تم ساری دنیا کو کچھ وقت کے لئے اور کچھ لوگوں کو عمر بھر کے لئے بے وقوف بناسکتے ہو لیکن ساری دنیا کو ساری عمر کے لئے بے وقوف بنانا ممکن نہیں“۔لیکن ہم ہیں جو ایک عرصے سے اس ناممکن کو ممکن بنانے میں مگن ہیں۔ ہم تزویراتی،گروہی ، مسلکی ، سیاسی ، صحافتی اور”قومی “مفاد کی خاطر عسکریت پسندی سے متعلق غلط بیانیوں کے ذریعے دنیا بھر کو عمر بھر کے لئے بے وقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کوشش میں خود کو بے وقوف بناڈالا۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ ہم امریکہ ، بھارت اور دنیا سے کھیل رہے ہیں لیکن کھیل ہمارے ساتھ ہورہا ہے ۔ نائن الیون کے بعد سے لے کر تادم تحریر امریکہ میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی مزاحمت دم توڑ رہی ہے ۔ ممبئی واقعہ کو ہندوستان نے جس طرح کیش کیا اور ہم نے اس کی جو قیمت ادا کی ، اس کے بعد ہندوستان بھی اسی طرح کی کاروائیوں سے محفوظ ہوتا نظر آرہا ہے ۔ جبکہ اس کے برعکس پاکستان ،دہشتستان بنتا جارہار ہے ۔ عام آدمی اور سیاسی لیڈر تو کب سے نشانہ پر تھے ، اب جی ایچ کیو بھی محفوظ نہیں رہا ۔ مذہبی لیڈروں کے بعد اب ان لوگوں کی بھی باری آتی نظر آرہی ہے جو عسکریت پسندی کے خالق تھے اور جو اپنے آپ کو عسکریت پسندوں کے استاد قرار دیتے تھے۔

المیہ یہ ہے کہ جو جس قدر زیادہ باخبر ہے ، وہ اس قدر زیادہ جھوٹ بول اور کنفیوژن پھیلارہا ہے ۔ جن لوگوں کی عرب مجاہدین سے جتنی زیادہ قربت رہی اور جو جتنے زیادہ شیخ اسامہ کے قریب تھے ،وہ اس قدر جھوٹ بولتے اورکنفیوژن پھیلا تے، القاعدہ کے وجود اور قوت کا انکار کررہے ہیں۔ ان لوگوں کے مفروضوں پر یقین کرکے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ نائن الیون یہودیوں کا کیا دھرا ہے اور اس دعوے کو بھی درست مان لیا جائے کہ سینکڑوں کی تعداد میں ویڈیو سی ڈیز بھی جعلی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں تقسیم ہونے والے پمفلٹس اور کتابیں بھی سازش کے تحت تیار ہوکر تقسیم ہورہی ہیں توپھر سوال یہ ہے کہ نائن الیون سے بہت پہلے خوست میں پاکستانی صحافیوں کے سامنے اسامہ بن لادن کی پریس کانفرنس او رامریکہ کے خلاف اعلان جنگ بھی کیایہودیوں کا ڈرامہ تھا؟۔آخر ملامحمد عمراخوند نے کن لوگوں کی خاطر اپنے اقتدار کی قربانی دے دی؟۔ کینیا اور تنزانیہ بم دھماکوں کے بعد کیا میڈرڈ، بالی، لندن یا کابل کے سیرینا اور اسلام آباد کے میریٹ بم دھماکوں کے منصوبے بھی کیا واشنگٹن میں تیار ہوئے ؟۔

طریق کار اور ترجیحات کا فرق تو ایک جماعت کے مختلف افراد کے درمیان بھی نظر آتا ہے ۔ یقین نہ آئے تو پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن اور بابر اعوان کی طریق کار اور ترجیحات کا فرق ملاحظہ کرلیجئے ۔اسی نوع کا فرق اسامہ بن لادن ،ملامحمد عمر اور حکیم اللہ محسود وغیرہ کے طریق کار اور ترجیحات میں بھی موجود ہے۔ مقامی حالات کا اثر قومی سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی لیتی ہیں۔ ہماری قومی اور مذہبی جماعتیں بھی سندھ میں کالاباغ ڈیم کی مخالف اور پنجاب میں حمایت کرتی رہتی ہیں اور یہی فرق ہمیں القاعدہ، افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کی سرگرمیوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے ۔لیکن نہ صرف نظریہ ، تصور جہاد اور تصور شریعت سب کا ایک ہے بلکہ دشمن بھی سب کا مشترک ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ القاعدہ کی ترجیح یہ رہی کہ عالمی سطح پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ٹارگٹ کیا جائے ۔ افغان طالبان اپنی سرگرمیوں کو افغانستان کی سرحدوں کے اندر تک محدود رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جبکہ پاکستانی طالبان کی اکثریت نے شروع دن سے” سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ بلند کیا ہوا ہے ۔ القاعدہ افغانستان میں افغان طالبان اور پاکستان میں پاکستانی طالبان کا محتاج ہے ۔ ان کو پناہ گاہ اور افرادی قوت یہاں سے ملتی ہے لیکن دوسری طرف یہی دونوں القاعدہ کے محتاج ہیں کیونکہ سوچ اور ٹیکنالوجی اس کی فراہم کردہ ہے ۔ خودکش حملوں جو کہ افغان اور پاکستانی طالبان دونوں کی سب سے موثر ہتھیار ہے ، کی ٹیکنالوجی القاعدہ ہی نے افغان اور پاکستانی طالبان کو منتقل کردی۔ افغان طالبان پہلے تصویر اور ویڈیو کو حرام سمجھتے تھے لیکن اب ویڈیو سی ڈیز ان کی پیغام رسانی کا اہم ذریعہ ہے ۔ اسی طرح انٹرنیٹ بھی ان دنوں افغان اور پاکستانی طالبان کا موثر ہتھیار ہے اور یہ سب کچھ القاعدہ کی تربیت کی مرہون منت ہیں۔یوں ڈرائیونگ سیٹ پر القاعدہ بیٹھا ہوا ہے اور اس لئے میرا اصرار ہے کہ القاعدہ کو نظرانداز کرکے عسکریت پسندی کے مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے اور نہ عسکریت پسندوں سے مفاہمت ممکن ہے۔

تندور گرم ہوتو اس میں ہر کوئی آکر اپنی روٹی لگواتا ہے۔ یہ خطہ عالمی اور علاقائی قوتوں کی پراکسی وارز کا مرکز بن چکا ہے ۔ ڈیورنڈ لائن کے آرپار ریاستی عمل دراری کب کی ختم ہوچکی ہے ۔ یہاں خفیہ ایجنسیوں کی جنگ زوروں پر ہے ۔ دوست اور دشمن کا فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ان حالات میں پاکستانی ایجنسیوں کے علاوہ سی آئی اے ،را، موساد ، خاد ، سیوک اور کے جی بی وغیرہ بھی یہاں پر اپنا کام کررہی ہیں ۔یقینا بعض عسکریت پسند دانستہ یا نادانستہ طور پر ان میں سے کسی ایک یا زیادہ عناصر کے مقاصد کے لئے استعمال ہورہے ہوں گے لیکن واضح اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اپنی سوچ کے مطابق ایک کمٹمنٹ کے تحت اسی راستے کو بچاؤ کا واحد راستہ سمجھ کر سرگرم عمل ہیں۔ القاعدہ اور پاکستانی طالبان میں اب انتہاپسند سوچ کے حامل لوگ آگے آگئے ہیں ۔ وہ امریکہ کی طرح اس کے مسلمان اتحادیوں سے بھی لڑنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ اگر سوویت یونین کے حامی مسلمان ببرک کارمل یا ڈاکٹر نجیب اور ان کے ساتھی مسلمان افغانیوں سے لڑنا جہاد تھا تو اب امریکہ کے اتحادی حامد کرزئی، شاہ عبداللہ ، آصف زرداری اور ان کی فوج یا پولیس سے لڑنا بھی فرض ہے ۔ اب تو یہ سوچ بھی غلبہ پارہی ہے کہ امریکہ سے بھی پہلے عرب ممالک اور پاکستان کا علاج ہونا چاہئیے ۔ ان کے اس اپروچ کے ساتھ اب ان کے ہاں انتقام کا عنصر بھی غالب آرہا ہے ۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ انہیں امریکہ، عرب ممالک اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے استعمال کرکے پھینک دیا۔ پہلے انہیں شاباش دیا جاتا رہا اور اب ان کے لئے جینا مشکل کردیا گیا ہے ۔ پاکستانی ریاست کو وہ منافقت کا بھی الزام دے رہے ہیں ۔ پہلے وہ صرف حکومتی اور فوجی شخصیات کو نشانہ بناتے رہے لیکن اب ان کے نزدیک ہر وہ شخص واجب القتل بنتا جارہا ہے جو ان کی سوچ سے اختلاف کرتا ہے ۔ اس سوچ کے تحت مختلف زبانوں میں لٹریچر بھی تیار ہوکر تقسیم ہورہا ہے ۔ افغان طالبان کی طرح پاکستان میں بھی بعض عسکریت پسند پاکستان کے اندر لڑنے کے روادار نہیں لیکن ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو القاعدہ اس سوچ کی اس سوچ کے حامل ہے ۔ محسود گروپ کے علاوہ پاکستان کی جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے وہ لوگ (پنجابی طالبان) جو قبائلی علاقوں میں منتقل ہوگئے تھے اور اب واپس اپنے علاقوں کا رخ کررہے ہیں ، زیادہ تر اسی سوچ کے حامل ہیں اور یہ افغان طالبان کے مقابلے میں القاعدہ کے زیادہ زیراثر ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہم کب تک دنیا کو بے وقوف بنانے کی کوشش میں اپنے آپ کو بے وقوف بناتے رہیں گے ۔ پہلے دعویٰ کیا جاتا رہا کہ قبائلی علاقوں میں کوئی غیرملکی موجود نہیں ہے لیکن اب جبکہ وہاں پر عربوں اور ازبکوں کی موجودگی سے ہر کوئی باخبر بن گیا تودوسری طرح کے دلائل تراشے جانے لگے۔

پہلے یہ جھوٹا پروپیگنڈا ہوتا رہا کہ بیت اللہ محسود امریکی ایجنٹ ہیں لیکن جب انہیں امریکی ڈرون سے نشانہ بنایا گیا تو آئیں بائیں شائیں کا سہارا لیا جانے لگا ۔ پاکستانی طالبان اگر امریکی ایجنٹ ہیں تو پھر کرنل امام کی بجائے خالد خواجہ کو کیوں ماردیتے ہیں؟۔ اب تحریک طالبان پاکستان اور حکیم اللہ محسود سے متعلق کنفیوژن پھیلائی جارہی ہے ۔۔ ان کی دھمکیوں کو بھڑک قرار دیاجارہا ہے ۔ ان کی صلاحیت سے متعلق سوال اٹھائے جارہے ہیں ۔ خوست میں امریکی بیس کے اندر واقع سی آئی اے کے مرکز میں عرب خودکش ابودجانہ کے ذریعے امریکیوں کو ذلیل کروانے کے بعد بھی کیا ان لوگوں کی صلاحیت کے بارے میں کسی غلط فہمی کی گنجائش ہے ؟۔ سوال یہ ہے کہ جی ایچ کیو کے اندر کاروائی مشکل ہے یا پھر کسی مغربی ملک کے کسی شہر میں؟۔ خوست کے سی آئی اے کے مرکز میں خودکش حملہ کرنے والے ابودجانہ کی کاروائی سے قبل حکیم اللہ محسود کے ساتھ ویڈیو فلم کی تیاری ،القاعدہ اور پاکستانی طالبان کی قربت اور کوآرڈینیشن کا بین ثبوت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ القاعدہ کی قوت ، پاکستانی عسکریت پسندوں کی قوت میں شامل ہے اور پاکستانی عسکریت پسندوں کی قوت القاعدہ کی قوت کا حصہ ہے جبکہ افغانستان کے اندر یہی رشتہ القاعدہ اور افغان طالبان کا استوار ہے ۔ یوں جو بھی معاملہ کرنا ہو، سب کے ساتھ یکساں کرنا ہوگا۔ القاعدہ کے خلاف طاقت استعمال ہوگی تو طالبان سے مفاہمت نہیں ہوسکے گی ۔ افغان طالبان کی کامیابی کی آرزووں کے ساتھ پاکستانی طالبان کو زیر نہیں کیا جاسکتا ۔تبھی تو ہمہ وقت گذارش کرتا رہتا ہوں کہ مسئلے کا حل فوجی آپریشن نہیں۔ یہ ہمہ جہت مسئلہ ہے اور حل کے لئے ہمہ پہلو سٹریٹجی بنانی ہوگی۔ یہ معاملہ مذہبی بھی ہے ، سٹریٹیجک بھی ہے، سیاسی بھی ہے ، معاشی بھی ہے اور معاشرتی بھی ۔ اس لئے فوجی آپریشنوں کے بجائے ان سب پہلووں کا احاطہ کرنے والا سیاسی اور مفاہمتی عمل تلاش کرنا ہوگا۔ایک علاقے میں آپریشن اور دوسرے میں مفاہمت ، ایک کے ساتھ جنگ اور دوسرے کے ساتھ صلح ، اس پالیسی کے نتیجے میں تباہی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کابنیادی خدوخال بدل کر ہمہ پہلو سیاسی حل نکالناہوگا۔نہیں تو پورے پاکستان کے وزیرستان بننے کے لئے تیار ہو جائیے۔

Thursday, May 6, 2010

مولاناخواجہ خان محمدرحمہ اللہ

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی امیر مولانا خان محمد آف خانقاہ سراجیہ کندیاں ضلع میانوالی 90 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ وہ گزشتہ چند روز سے مقامی اسپتال میں زیر علاج تھے؛ اور بدھ کی شام خالق حقیقی سے جا ملے۔ مولانا خان محمد نقشبندی سلسلہ نقشبند دیوبند مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ پاکستان اور بیرونی ممالک میں ان کے مریدین اور عقیدت مندوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ انہوں نے قادیانیت کے خلاف عظیم جدوجہد کی اور دنیا میں قادیانیت کے خلاف ہزاروں عالمی تحفظ ختم نبوت کانفرنسوں سے خطاب کیا۔ مولانا خان محمد کے انتقال جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی کے امیر منور حسن، سابق امیر قاضی حسین احمد، جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم حضرت مولانا محمد عبیداللہ، شیخ الحدیث مولانا عبدالرحمن اشرفی، مولانا حافظ فضل الرحیم، مولانا مجیب الرحمن انقلابی، مولانا سمیع الحق، مولانا امجد خاں، مسلم لیگ (ق) کے صدر سینیٹر چوہدری شجاعت حسین، سینئر مرکزی رہنما چوہدری پرویز الٰہی، مونس الٰہی اور راسخ الٰہی نے دلی رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ ان رہنماؤں نے اپنے الگ الگ بیانات میں مرحوم کے پسماندگان سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا مرحوم عالم اسلام کا ایک بیش قیمت اثاثہ تھے جن کی دینی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ وفاق المدارس العربیہ کے رہنماؤں مولانا سلیم اللہ خان، مفتی اعظم محمد رفیع عثمانی، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، محمد حنیف جالندھری اور دیگر رہنماؤں نے خواجہ خان محمد کی رحلت عالم اسلام کے لئے ناقابل تلافی نقصان اور افسوسناک سانحہ قرار دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اپنا دورہ کشمیر ختم کرکے اسلام آباد پہنچ گئے جبکہ جمعرات کو ان کی رہائش گاہ پر ہونے والا ایم ایم اے کا اجلاس بھی ملتوی کردیا گیا ہے۔

Monday, May 3, 2010

قرآن فلیش

اب آپ اپنے کمپیوٹر پر قرآن مجید کی تلاوت اسی طرح کر سکتے ہیں جیسے قرآن مجید کو ہاتھ میں لے کر کی جاتی ہے۔
ذرا اس ویب سائٹ پر جائیں۔