تقسیم میراث کی اہمیت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میراث کی اہمیت و فضیلت

میراث کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ اللہ رب العزت نے قرآن مقدس میں اس کی تفصیلات کو کئی آیات میں بیان کیا ہے ۔ دیگر کئی احکام بھی قرآن مجید میں بیان ہوئے مگر اللہ رب العزت نے انکی جزئیات کو بیان نہیں کیا مثلاً زکوٰة ہی کو آپ لیں اللہ رب العزت نے اس کی فرضیت اور فضیلت کو تو قرآن مجید میں بیان فرمایا مگر اس کی مقدار بیان نہیں کی ، اسی طرح نماز کی فرضیت کو بیان فرمایا مگر اس کی رکعتوں اور طریقہ کا ر کو بیان نہیں فرمایا ۔

لیکن میراث کی اہمیت کے پیش نظر اس کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا اور ورثاءکے حصص کو بھی بیان فرمایا۔ تقسیم میراث وہ اہم فریضہ ہے جس میں کوتاہی عام ہے اس اہم فریضہ کے تارک عام پائے جاتے ہیں کوئی شخص فوت ہوتا ہے تو اس کے ترکہ پر کوئی ایک وارث یا چند ورثاء مل کر قابض ہو جاتے ہیں ۔کسی دوسرے کا حق کھانا حرام ہے اور حرام کھانے پر جہاں آخرت میں عذاب ہوگا وہیں دنیا میںبھی اسکے بڑے نقصانات ہیں ۔

دین سے دوری کا سبب ؟

مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے ” میں نے بصیرت کی بناءپر تجربہ کیا ہے کہ لوگوں کی دین سے دوری میں اسی 80 فیصد حرام مال کھانے کا عمل دخل ہے ،اور دس فیصد اس سے کہ بے نمازی کے ہاتھ کا کھانا کھاتے ہےں اور دس فیصد اس سے کہ نیک لوگوں کی صحبت اختیا ر نہیں کرتے۔

کسی دوسرے کا حق کھانا گناہ کبیرہ ہے اور یہ ایسا گناہ ہے کہ جب تک معاف نہ کرایا جائے معاف نہیں ہوگا۔ ممکن ہے اللہ رب العزت مہربانی فرماکرحقوق اللہ کو معاف فرمادیں مگر حقوق العباد (بندوں کے حقوق ) اس وقت تک معاف نہیں ہوں گے جب تک اس شخص سے معاف نہ کرادیئے جائیںجس کے حقوق تلف کئے ہیں ۔

ایک الائچی

حرام مال کھانے کے بے شمار ذرائع ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بے شمار ایسے بندے ہیں جو ا ن ذرائع سے بچتے ہیں مگر شرعی تقسیم میراث ایک ایسا فریضہ ہے جس میں کوتاہی کے مرتکب بڑے بڑے دیندار لوگ بھی ہیں ، کئی لوگ سود ، چوری ، جھوٹ وفریب سے بچتے ہیں اور دیندار ہونے کے دعوے دار ہیں لیکن میراث کے باب میں دوسروں کے حقوق کھا کر آگ کے انگارے اپنے پیٹ میں بھرتے ہیں ۔ حالانکہ مرنے والے کی جیب سے اگر ایک الائچی نکلے تو کسی وارث کے لئے شرعاً جائز نہیں کہ وہ اس الائچی پر قابض ہو جائے کیونکہ اس میں تمام ورثاءکا حق ہے ۔ اس الائچی کو بھی ترکہ میں رکھ کر شرعی طریق سے تقسیم کیا جائے گا۔

ڈیڑھ صفحہ

آج حالت یہ ہو چکی ہے کہ لوگ رواج پر تو عمل کرتے ہیں مگر قرآن مجید کے ڈیڑھ صفحے پر عمل متروک ہو چکا ہے ۔ رواج یہ ہے کہ عورتوں کو جہیز میں کچھ سامان دے دیتے ہیں اور میراث میں جو ان کا حق بنتا ہے خود ہضم کرلیتے ہیں ۔ اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کو جہیز میں پوری دنیا کی دولت دے دے اس کے بعد اس بیٹی کا میراث میں ایک روپیہ بھی حق بنتا ہو تو وہ ایک روپیہ اس بیٹی کا حق ہے یہ اس کو دینا پڑے گا ۔ اگر اس دنیا میں نہ دیا تو کل آخرت میں اپنی نیکیوں کو صورت میں دینا پڑے گا ۔

کچھ لوگ عورتوں سے یہ کہلواکر کہ ہم نے اپنا حق معاف کردیا ،بے فکر ہو جاتے ہیں ایسا کرنے سے ان کا حق معاف نہیں ہو گا اسکی صرف ایک صورت ہے وہ یہ کہ میراث کے مال کو اور جائیداد کو شرعی طریقہ سے تقسیم کردیا جائے اور جائیداد ورثاءکے نام کرکے حوالے کردی جائے اس کے بعد اگر کوئی وارث اپنی مرضی اور طیب خاطر سے اپنا حق ہبہ کرنا چاہے یا واپس کرنا چاہے تو جائز ہے ۔

جبری ملکیت

وراثت کے ذریعہ جو ملکیت ورثاءکی طرف منتقل ہوتی ہے وہ جبری ملکیت ہے ، نہ تو اس میں وراثت کا قبول کرنا شرط ہے اور نہ وارث کا اس پر راضی ہونا شرط ہے بلکہ اگر وہ اپنی زبان سے صراحتاً یوں بھی کہہ دے کہ میں اپنا حصہ نہیں لیتا تب بھی شرعاً وہ اپنے حصے کا مالک بن جاتا ہے یہ دوسری بات ہے کہ وہ اپنے حصے کو قبضے میں لینے کے بعد شرعی قاعدے کے مطابق کسی دوسرے کو ہبہ کر دے یا بیچ ڈالے یا تقسیم کردے ۔

(تفصیلات کے لئے “تنویر الحواشی فی توضیح السراجی صفحہ 180،شرح الاشباہ والنظائر،عزیزالفتاویٰ صفحہ 78،معارف القرآن جلد2ص312دیکھیں۔(

کوتاہی کا اندازہ

میراث کی شرعی تقسیم میں کتنی کوتاہی ہوتی ہے ؟ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ میراث کے مسائل ہر عالم اور مفتی کو یاد بھی نہیں ہوتے اس کی وجہ یہ نہیں کہ انہوں نے یہ مسائل پڑھے نہیں ہوتے ، بلکہ وجہ یہ ہے کہ ان سے کوئی میراث کے مسائل پوچھنے والا ہی نہیں آتا حالانکہ ہر روز ہزاروں مسلمان فوت ہورہے ہیں ۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ علماءکے پاس میراث کے مسائل پوچھنے والوں کی لائنیں لگی ہوں لیکن ایسا نہیں ہے ۔ ہر روز اتنی طلاقیں نہیں ہوتیں جتنے انسان فوت ہو رہے ہیں لیکن طلاق کے مسائل پوچھنے والے سب سے زیادہ ہیں ۔

میراث کی اسی اہمیت کے پیش نظر حضور اقدس ﷺ نے علم میراث سیکھنے اور سکھانے والوں کے فضائل بتائے اور میراث میں کوتاہی کرنے والوں کے لئے وعیدیں سنائیں ۔

ذیل میں میراث کی اہمیت اور فضیلت اور اس میں کوتاہی کرنے والوں کے بارے میں چند احادیث پیش کی جاتی ہیں ۔

علم میراث سیکھو اور سیکھاوٗ

ترجمہ….٭حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺنے فرمایا تم علم فرئض (علم میراث) سیکھو اور لوگوں کوبھی سیکھاوٗ کیونکہ میں وفات پانے والا ہوں اور بلاشبہ عنقریب علم اٹھایا جائے گا اور بہت سے فتنے ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ دو آدمی حصہ میراث کے بارے میں باہم جھگڑا کریں گے اور انہیں ایسا کوئی شخص نہیں ملے گا جو ان کے درمیان اسکا فیصلہ کرے ۔(المستدرک علی الصحیحین جز4ص369)

میراث نصف علم ہے

ترجمہ….٭تم فرائض (میراث)سیکھو اور لوگوں کو سکھاوٗکہ وہ نصف علم ہے بلاشبہ وہ بھلا دیا جائے گا اور میری امت سے یہی علم سب سے پہلے سلب کیا جائے گا۔ (ابن ماجہ ج2ص908)

بے سر کے ٹوپی

ترجمہ….٭وہ عالم جو فرائض (میراث ) نہ جانتا ہو ایسا ہے جیسا کہ بے سر کے ٹوپی یعنی اس کا علم بے زینت وبے کار ہے۔  (جمع الفوائد کتاب العلم)

سر جس میں چہرہ ہی نہیں

ترجمہ….٭حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے : جس نے قرآن سیکھا لیکن فرائض (میراث) کو حاصل نہ کیا تو اس کی مثال ایسے سر کی ہے جس میں چہرہ نہ ہو۔ (الدارمی 441/2 )

باتیں کرنا

ترجمہ….٭جب تم کھیلنا چاہو تو تیر اندازی کا کھیل کھیلو اور جب باتیں کرنا چاہو تو فرائض کی باتیں کرو۔(المستدرک علی الصحیحین جز4صفحہ 370) (سنن بیہقی ج 6 ص209)

جنت سے محروم

ترجمہ….٭حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراقدس ﷺ نے فرمایا جس نے کسی وارث کے حصہ میراث کو روکا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اس کے حصے کو روکیں گے ۔(مشکوة)

دوزخ میں داخلہ

ایک صحیح حدیث کا مضمون ہے کہ بعض لوگ تمام عمر اطاعت خداوندی میں مشغول رہتے ہیں لیکن موت کے وقت میراث میں وارثوں کو ضرر پہنچاتے ہیں (یعنی بلاوجہ شرعی کسی حیلے سے محروم کردیتے ہیں یا حصہ کم کردیتے ہیں) ایسے شخصوں کو اللہ تعالیٰ سیدھا دوزخ میں پہنچادیتاہے۔(مشکوة)

بھوکا

ترجمہ….٭حضور ﷺ نے فرمایا جس نے مال حق کے ساتھ لیا تو اس میں برکت ڈالی جائے گی اور جس نے بغیر حق کے مال لیا تو اس کی مثال اس شخص سی ہے جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا ۔ ( الصحیح الامام المسلم727/2)

قال عمر

ترجمہ….٭حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میراث ، لحن ، اور سنن کواس طرح سیکھو جیسا کہ تم نے قرآن کو سیکھا۔ (سنن دارمی441/2 بیہقی ، مصنف ابن شیبہ )

قال عبداللہ

ترجمہ….٭حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ علم میراث اور طلاق اور حج کو سیکھو یہ تمہارے دین میں سے ہے ۔ (دارمی 441/2 )

ترجمہ….٭حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ علم میراث کو سیکھو عنقریب آدمی اس علم کا محتاج ہو گا جس کو وہ جانتا تھا ، یا ایسی قوم میں ہو گا جو علم نہیں رکھتے۔(طبرانی ، مجمع الزوائد 224/4 المعجم الکبیر188/9 )

قال عقبة

ترجمہ….٭حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ علم میراث کو سیکھو گمان کرنے والوں سے پہلے یعنی جو لوگ گمان کے ساتھ باتیں کرتے ہیں۔(بخاری 2474/6 ، تغلیق التعلیق213/5 )

ان احادیث میں علم میرث کو سیکھنے اور سکھانے کا حکم دیا گیا ہے اور علم میراث کو نصف علم کہا گیا ہے اور وہ عالم جو میراث نہ جانتا ہو اس کے بارے میں فرمایا کہ وہ گویا ایسا ہے کہ اس کے پاس ٹوپی تو ہے مگر سر نہیں اور اسکے پاس سرتوہے مگر اس میں چہرہ نہیں۔

اسی طرح فرمایا جو کسی کا حصہ نہیں دے گا اللہ قیامت کے دن جنت سے اس کا حصہ روکیں گے۔ اب علماءاور عام مسلمانوں سب کی یہ ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ اس علم کو پھلائیں تاکہ لوگ اس حرام خوری کے گناہ عظیم سے بچ سکیں

چند مسائل

میراث سے متعلق احکام وفات کے بعد کے ہیں زندگی میں اگر کوئی شخص بحالت صحت اولاد میں مال و جائیداد تقسیم کرنا چاہے تو اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ بیٹے اور بیٹی کو مساوی طور پر حصہ دیا جائے اور اگر اولاد میں سے کسی کو اس کے تقویٰ یا دینداری یا حاجت مندی یا والدین کی خدمت گزاری کی وجہ سے نسبتاً زیادہ حصہ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں اور اگر اولاد بے دین فاسق و فاجر ہو اور مال دینے کی صورت میں بھی اس کی اصلاح کی امید نہ ہو تو انہیں صرف اتنا مال کہ جس سے وہ زندہ رہ سکیں دینے کے بعد بقیہ مال امور خیر میں خرچ کرنا افضل ہے (الدرمختار۲:۶۳۵) خلاصہ یہ ہے کہ زندگی میں بحالت صحت تو اختیار ہے لیکن مورث کے مرنے کے بعد کسی وارث کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔

عاق کرنا

چونکہ مرنے کے بعد وارث کا استحقاق خود ثابت ہو جاتا ہے اس لئے اگر کسی مورث نے عاق نامہ بھی تحریر کردیا کہ میں اپنے فلاں وارث سے(بیٹاہویا بیٹی یا کوئی اوروارث)فلاں وجہ سے ناراض ہوں وہ میرے مال اور ترکہ سے محروم رہے گا ۔ میں اس کو عاق کرتا ہوں تب بھی وہ شرعاً محروم نہیں ہو گا اور اس کا حصہ مقرر اس کو ملے گا کیونکہ میراث کی تقسیم نفع پہنچانے یا خدمت گزاری کی بنیاد پر نہیں۔ لہٰذا کسی بھی وارث کو محروم کرنا حرام ہے ایسی تحریر کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں۔ البتہ نافرمان بیٹے یا کسی دوسرے فاسق وفاجر وارث کو محروم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ یہ شخص اپنی صحت وتندرستی کے زمانہ میں کل مال ومتاع دوسرے ورثاءمیں شرعی طور پر تقسیم کرکے اپنی ملکیت سے خارج کردے تو اس وقت جب کچھ ترکہ ہی باقی نہیں رہے گا تو نہ میراث جاری ہو گی نہ کسی کو حصہ ملے گا۔(امداد الفتاویٰ جلد 4ص 364،تنویر الحواشی فی توضیح السراجی صفحہ180مولانا سید حسن صاحب مدرس دارالعلوم دیوبند)

ترکہ کیا ہے؟

وہ تمام جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ جو میت کو ورثہ میں ملی ہو یاخود کمائی ہو بشمول تمام قابل وصولی قرضہ جات ترکہ کہلاتی ہے جو چیز میت کی ملک میں نہ ہو بلکہ قبضہ میں ہو وہ ترکہ نہیں ہے مثلاً میت کے پاس کسی نے کوئی امانت رکھی تھی تو وہ ترکہ میں شامل نہ ہوگی بلکہ جس نے رکھوائی تھی اس کو واپس کی جائے گی ۔

وارث کون ؟

ہر خونی رشتہ دار اور خاوند بیوی جو میت کی وفات کے وقت زندہ ہو نیز حمل کا بچہ سب وارث کہلاتے ہیں ۔

قابل تقسیم ترکہ

سب سے پہلے میت کے دفن تک ہونے والے ضروری اخراجات اس کے ترکہ سے نکالے جاسکتے ہیں مثلاً کفن ، قبر کی کھدائی کی اجرت ، اگر ضرورت پڑے تو قبر کے لئے جگہ خریدنا وغیرہ یہ سب امور تجہیز میں داخل ہیں یہ اخرجات ترکہ سے نکالے جا سکتے ہیں اس کے علاوہ غیر شرعی امور مثلاً امام کے لئے مصلیٰ خریدنا وغیرہ یہ ترکہ سے نہیں نکالے جائیں گے تجہیز کے اخراجات میں نہ تو فضول خرچی کی جائے اور نہ بخل۔ اس کے بعد باقی مال سے میت کے ذمہ واجب الاداء قرضہ جات اداکئے جائیں گے بیوی کا مہر خاوند کے ذمہ قرض ہے اگر ابھی تک ادا نہیں کیا گیا تھا تو ترکہ سے پہلے اسے ادا کیا جائے گا ۔

اس کے بعد باقی مال سے جائز وصیت ایک تہائی (1/3)تک ادا کی جائے گی ۔ یہ تین کام کر نے کے بعد جو باقی بچ جائے وہ قابل تقسیم ترکہ ہے ۔ اب شرعی ضابطہ کے مطابق جس وارث کا (چاہے وہ مرد ہو یا عورت) جتنا حصہ بنتا ہو اسے دے دیا جائے اور جو وارث شرعی ضابطہ کے مطابق محروم ہوتا ہے اس کو محروم کر دیا جائے ۔

رخصتی سے پہلے بھی وراثت ملے گی

اگر کسی لڑکی اور لڑکے کی آپس میں منگنی ہوئی اور نکاح بھی ہوگیالیکن ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ لڑکا (یعنی خاوند) فوت ہوگیا تو تب بھی وہ لڑکی اس لڑکے کے مال سے بطور بیوی وراثت کی حق دار ہو گی ۔

منہ بولا بیٹا یا بیٹی

کسی مرد یا عورت نے کسی لڑکے یا لڑکی کو منہ بولا بیٹا یا بیٹی بنا لیا تو وہ لڑکا یا لڑکی اس مرد یا عورت کے ترکہ سے حق وراثت نہ پائے گا۔

نابالغ وارثوں کا حق وراثت

اگر میت کے وارثوں میں بعض نابالغ بچے ہوں اور وہ اپنے حصہ میں سے کچھ صدقہ ، خیرات یا ہدیہ کرنے کی اجازت دیں تو ان کی اجازت کا کوئی اعتبار نہیں ۔ تقسیم جائیداد کے بعد صرف بالغ وارثین اپنے اپنے حصہ سے خیرات وغیرہ کر سکتے ہیں اس سے پہلے نہیں ۔

مسئلہ تخارج

اگر کوئی وارث دوسرے وارثوں کی رضامندی سے اس شرط پر اپنا حق وراثت چھوڑ دے کہ اس کو کوئی خاص چیز وراثت میں سے دے دی جائے تو یہ شرعاً جائز ہے ۔ مثلاً ایک مکان یا ایک کار لے لی اور باقی ترکہ میں سے اپنا حصہ چھوڑ دیا ۔ یا خاوند نے اپنی مرنے والی بیوی کا حق مہر نہ دیا تھا تو اس نے اس کے بدلے اپنا حصہ وراثت جو بیوی کے ترکہ سے اس کو ملتا تھا چھوڑ دیا ۔

پینشن کی رقم کی تقسیم

میت کے وظیفہ یا پینشن کے بقایا جات جو اس کی موت کے بعد وصول ہوں ان کی بھی دوسرے ترکہ کی طرح تقسیم ہوگی لیکن اگر موت کے بعد پینشن جاری رہی جس کو فیملی پینشن کہتے ہیں تو سرکاری کاغذات میں جس کے نام پینشن درج ہو گی صرف وہی وصول کرنے کا حقدار ہوگا۔

میت کی فوت شدہ نماز و روز ے کا فدیہ

جس شخص کے ذمہ نماز یا روزے یا زکوة یا حج واجب ہو اور ا س پر موت کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں تو واجب ہے کہ وہ اپنے وارثوں کو وصیت کر جائے کہ میری طرف سے نماز، روزہ وغیرہ کا فدیہ ادا کردیں اور زکوة و حج ادا کردیں لیکن یہ وصیت جائیداد (ترکہ) کے ایک تہائی سے زیادہ وارثوں کی رضا مندی کے بغیر عمل میں نہیں لائی جاسکتی ایک نماز یا ایک روزہ کا فدیہ احتیاطاً دو کلو گرام گندم یا اس کی قیمت ہے جو روزے مرض الموت میں قضاءہوئے ہوں ان کی قضا اور فدیہ واجب نہیں ۔جو شخص نماز روزے حج وغیرہ کے ادا کرنے کی وصیت کر گیا ہو اگر اس نے مال بھی چھوڑا ہے تو اس کی وصیت (ترکہ کے ایک تہائی تک) کا پورا کرنا اس کے وارثوں پر واجب ہے اگر مال نہیں چھوڑا تو وارثوں کی مرضی پر موقوف ہے۔

شرعی تقسیم کے سلسلہ میں علماءدین اور مفتیان کرام سے رابطہ کیا جائے ۔ لیکن چونکہ دین اسلام ہر انسان کے لئے آیا ہے ، اور میراث کے مسائل سے ہر ایک کو واسطہ پڑتا ہے اس لئے عوام الناس کو بھی تقسیم میراث سیکھنا چاہیے۔ خصوصاً اس زمانے میں جب کہ یہ علم مٹتا جا رہا ہے اور عوام شرعی تقسیم سے لا پرواہی کر رہے ہیں اور اس علم کو سیکھنا بالکل آسان ہو چکا ہے اور شرعی تقسیم میراث کے نت نئے طریقے ایجاد ہو چکے ہیں ، جن کو ایک عام شخص جو تھوڑا بہت پڑھا لکھا ہو سیکھ سکتا ہے ۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یہ علم سیکھیں اور سکھائیں اور اس پر عمل کریں اور نصف علم کے حصول کا ثواب حاصل کریں۔

انجینئر ملک بشیر احمد بگوی صاحب جو مکان نمبر173 گلی نمبر15 سیکٹرE-7 اسلام آباد میں مقیم ہیں اللہ رب العزت نے ان سے اس سلسلے میں بڑا کام لیا ہے انہوں نے تقسیم میراث کے تین جدید طریقے متعارف کرائے ہیں جو بالکل آسان ہیں ایک عام شحص بھی چند روز میں سیکھ سکتا ہے ،اور ان سے اب تک اندرون وبیرون ملک ہزاروں افراد یہ طریقے سیکھ چکے ہیں جن میں پروفیسر ، وکلاء، افسران ، ڈاکٹرز ، علماء، طلباء، اور دیگر عوام شامل ہیں ۔ بلکہ اب انہوں نے ایک ایسا کمپیوٹر پروگرام تیار کیا ہے جس میں کمپیوٹر پر بیٹھ کر ورثاءاور ان کے کوڈ لکھے جائیں تو کمپیوٹرخود ہر وارث کا حصہ بتا دے گا ۔ جس میں نہ وقت صرف ہوتا ہے اور نہ دماغ۔ یہ کمپیوٹر پروگرام ان سے مفت حاصل کیا جا سکتا ہے ۔

٭….٭٭….٭